ایشئین کلچرل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام نامور صحافی ”رحمت علی رازی“ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تقریب کا انعقاد

(رپورٹ، تصاویر،،انجم شہزاد)

ایشیئن کلچرل ایسوسی ایشن پاکستان فن و ثقافت کے حوالے سے ایک ایسی تنظیم ہے جو گزشتہ 38سال تقاریب کا انعقاد کر رہی ہے، اسی ایسوسی ایشن کے زیراہتمام ایشیئن کلچرل ایوارڈ بھی تقسیم کیئے جاتے ہیں، جبکہ اسی تنظیم کے زیر اہتمام شوبز اور دیگر نامور شخصیات جو اس دنیا سے چلے گئے ان کے لیئے تعزیتی ریفرنس اور خراج عقیدت کی تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں، جیسے گزشتہ دنوں الحمرا لاہور آرٹس کونسل اور مذکورہ تنظیم نے ملک کے نامور صحافی، کالم نگار، اردو انگلش اخبارات اور میگزین کے پبلشر، اور تحقیقاتی رپورٹنگ میں ملک کی سب سے بڑی صحافتی تنطیم اے پی این ایس سے مسلسل 7سال ایوارڈ حاصل کرنے والے واحد صحافی رحمت علی رازی کی یاد میں خراج عقیدت کی تقریب سجائی، جس میں رحمت علی رازی کے فرزند اویس رازی نے خصوصی طور پر شرکت کی، تقریب کی نظامت کے فرائض معروف شاعر اور صحافی اعظم منیر نے سر انجام دیئے، جبکہ تلاوت کلام پاک کا شرف علامہ فاروق اکرم نے حاصل کیا، معروف کمپیئر عزیز شیخ نے چند نعتیہ اشعار پیش کیئے، جبکہ معروف صحافی، ایف ایم 95پنجاب رنگ کے سپر ہٹ آر جے انجم شہزاد نے اپنی پر تاثیر آواز میں ”اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے“نعت پیش کر کے محفل پر روحانی کیفیت طاری کر دی، تقریب میں موجود افراد نے کہا کہ ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ صحافت کے میدان کا شہسوار نعت کی فیلڈ میں بھی اپنا رنگ جما چکا ہے، تقریب میں جن نمایاں افراد نے شرکت کی ان میں ساجد نذیر، چوہدری غلام غوث، اویس رازی، سینیئر صحافی طفیل اختر، معروف مصنف و ہدائیتکار محمد پرویز کلیم، معروف اداکار، ڈائریکٹر، مسعود اختر،صحافی عمران احسان، احتشام سہروردی، سید ندیم عباس، ظفر اقبال ظفر، گل نواز بلوچ، اور دیگر شامل تھے، تقریب میں مختلف افراد نے نامور صحافی، کالم نگار رحمت علی رازی کی زندگی، صحافتی کارناموں اور عام زندگی میں ان کی سادہ مزاجی کے حوالے سے گفتگو بھی کی، ایشیئن کلچرل ایسوسی ایشن کے روح رواں سیکرٹری جنرل سید سہیل بخاری نے آنے والے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ آج ایک نامور صحافی کی یاد کے لیئے اکھٹے ہوئے، جبکہ نا آنے والوں پر گلہ کیا اور کہا کہ لوگوں کو مرنا شائد بھول گیا ہے، جن کو ایسی تقاریب کے لیئے ٹائم نہیں ملتا جبکہ دیگر رنگین تقریبات کے لیئے بھاگے جاتے ہیں، سید سہیل بخاری نے کہا کہ میں نے بہت دفعہ اعلان کیا کہ میں ایسی تقاریب یا ایوارڈ شوز نہیں کرواوں گا مگر پھر کہتا ہوں کہ چلو شائد ایسے ہی کوئی جنونی میرے مرنے پر بھی چند لوگوں کو اکھٹا کر کے بیٹھ جائے، رازی صاحب ہمارے ملک کا بہت بڑا نام مگر تقریب میں ان کے پیاروں اور ان سے سیکھ کر نام بنانے والوں کی غیر حاضری پر دل خون کے آنسو روتا ہے، تقریب سے مختصر خطاب کے دوران چوہدری غلام غوث نے رحمت علی رازی کے حوالے سے بتایا کہ کیسے بہاولپور کا ایک عام نمائندہ اپنی محنت سے اس مقام تک پہنچا کہ بیورو کریسی میں تھرتھلی مچا دی، سیکرٹیر یٹ کو ایک بیٹ بنایا اور تحقیقی صحافت میں کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے کہ سات سال مسلسل اے پی این ایس ایوارڈ حاصل کیایہ وہ اعزاز ہے جو ان کے بعد آج تک کسی کے حصے میں نہیں آیا،ان کے کالم کا ایک منفرد سٹائل تھا جس میں عام قاری کی دلچسپی کا مواد ہوتا تھا، ان کے کالمزسے بیورو کریسی میں کھلبلی مچی رہتی تھی، انہوں نے ہی عوام کو بتایا کہ سیاسستدان، صنعتکار، بیورو کریسی کا گٹھ جوڑ کیسے مفادات کا تحفظ کرتا ہے،ان کے کالموں میں دلچسپی کا عنصر نمایاں تھا، چوہدری غلام غوث نے بتایا کہ چونکہ ان کا تعلق دیہاتی پس منظر سے تھا،وہ ہی سٹائل اپنایا نہائت سادہ مزاج آدمی تھے، پیار محبت اور رکھ رکھاؤ والے، نا خود کبھی خوشآمد کی نا پسند کرتے تھے،نامور صحافی مجیب الرحمان شامی نے اپنے کالم میں ”صحافت کا امام رازی“کہا، جو ایک اور بڑا اعزاز ہے،نوجوان مصنف، کالم نگار ظفر اقبال ظفر نے بھی عقیدت کے پھول؛ نچھاور کرتے ہوئے کہا کہ میری ان سے ملاقات نہیں غائبانہ تعارف ضرور تھا، آج اتنے لوگوں کو ان کی محبت میں بیٹھا دیکھ کر اچھا لگا،مصنف و ڈائریکٹر محمد پرویز کلیم نے کہا کہ آوازیں اور تحریریں کبھی مرا نہیں کرتیں،رازی صاحب نام کے رازی تھے اور راز افشا کرتے تھے دلیر آدمی تھے۔آجکل تو لوگوں نے برے کو برا کہنا چھوڑ دیا جبکہ وہ ببانگ دھل سب کہہ جاتے میں ان سے ایام جوانی میں ملا تھا، ان سے قلم کی وجہ سے رشتہ تھا اس کو نبھانے آیا ہوں، آخر میں کہا کہ رازی صاحب مخلوق خدا سے محبت کرنے والے تھے،طفیل اختر نے بھیکہا کہ ملاقاتیں کم ہوئیں، میرے پاس رحمت علی رازی کے لیئے عقیدت کے پھول ہیں، آج دوستوں کی محبت دیکھ کر رحمت علی رازی سے محبت کا رشتہ قئم ہوا اللہ پاک ان کی مغفرت کرے،میں ابھی تک حیران ہوں کہ بیوروکریسی کے حوالے سے اتنی اندر تک کی خبریں کیسے لاتے تھے، اور اب تک دوسرا رحمت علی رازی کیوں نا آسکا،رحمت علی رازی کے ہونہار فرزند اویس رازی کو سٹیج پر بلوایا گیا مگر وہ اپنے والد کے حوالے سے الفاظ ادا نا کر سکے اور کہا کہ میرے لیئے مشکل ہو رہی ہے، آپ سب کے پیار محبت خلوص کا شکریہ آخر میں رحمت علی رازی کے بلندیء درجات کے لیئے دعا کی گئی، کہ اللہ پاک لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے کیونکہ ان کی اچانک وفات سے صحافتی برادری کے ساتھ عام عوام کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا

شیئرکریں