34سال فلم ‘ ٹی وی اور سٹیج پر قہقہے بکھیرنے کے باوجود خود کو ابھی بھی طفل مکتب سمجھتا ہوں
پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور کامیڈین لہری کے شاگرد نے سلطان راہی کیساتھ بھی کامیڈی کردار نبھائے
انجم شہزاد
میں نے خود پر کسی مخصوص کردار کی چھاپ لگوائی نا کسی کی کاپی کرتا ہوں فارغ ٹائم میں نئے نئے آئیڈیاز بناتا ہوں اور پرفارم کرتا ہوں آجکل جیسی کامیڈی سٹیج ڈراموں میں ہو رہی ویسی نہیں کر سکتا اس لیئے سٹیج ڈرامے سے دور ہوں ان خیالات کا اظہارنامور کامیڈین اورفلم سٹارغفار لہرینے ایک ملاقات میں کیا جو ون مین شو کے ماسٹر تو ہیں ہی انہوں نے سٹیج پر بھی اپنی دھاک اورسکہ جما رکھا ہے، ہمیشہ کچھ نیا سے نیا کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں، ۔غفار لہری کو خدا نے بہت سی صلاحیتیں دے رکھی ہیں جن کو وہ بروئے کار لا کر 34سال سے عوام میں خوشیاں اور قہقہے بکھیر رہے ہیں ۔وہ نامورکامیڈین صفیر اللہ لہری کے اکلوتے شاگردہیں اسی وجہ سے ان کے نام کا سابقہ استعمال کرتے ہیں۔ غفار لہری نے اپنے حالات زندگی بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فنی سفر کا آغاز 34برس قبل سٹیج ڈرامہ سے کیا جس وقت ان کی عمر بیس سال تھی باغ جناح کے اوپن ائیر تھیٹر سے کیا تھا۔اس وقت میں نے حاجی البیلا اور دیگر نامور فنکاروں کیساتھ بھی کام کیا ۔اس وقت تھیٹر ڈرامہ آج سے بہت بہتر تھااورفیملیز سٹیج ڈرامہ دیکھنے آتی تھیں جبکہ آجکل ایسا نہیں فیملی نے سٹیج ڈرامے سے منہ موڑ لیاہے، سٹیج ڈرامہ اصلاح معاشرہ کا اہم پلیٹ فارم تھا، مگر پھر ایک عجیب سا دور تھیئٹر پر آیا کہ سب کچھ برباد ہوگیااوپن ائر تھیٹر نئے فنکاروں کیلئے اکیڈمی کا درجہ رکھتا تھا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فلم کیطرف وہ 1985ء میں آئے۔ پہلی فلم جاوید رضا کی ’’کڑی منڈا راضی‘‘ تھی ۔اس کے بعدفلم’’ چکوری اورسناٹا‘‘‘میں بھی کام کیا ۔سلطان راہی کیساتھ بھی فلم ’’ اقتدار‘‘ میں کام کا موقع ملا۔ سلطان راہی اور انجمن کی آخری فلم’’خون دا حساب ‘‘ کی کاسٹ میں بھی میں شامل تھا۔اس کے علاوہ فلم’’جیت‘لاہوری منڈا‘وحشی راجپوت‘بھولا سجن‘ اور کرفیو آرڈر‘‘ میں بھی کامیڈی کردار کئے۔اس وقت نامور فنکار فلم انڈسٹری میں موجود تھے اور ان کی موجودگی میں اپنی الگ پہچان بنانا مشکل تھا مگر میں نے ہمت نا ہاری ، ٹی وی ڈراموں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلا ڈرامہ حفیظ طاہر کا 1990ء میں کیا جس کا نام تھا’’ہمیں زندہ رہنا ہے‘‘ ۔شیریں پاشا کے ساتھ ایس ٹی این پر کئی ڈرامے کئے جن میں’’لکی سٹار ہوٹل‘ ‘اور ’’گلی میں مچ گیا شور‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ پرائیویٹ پروڈکشن کے تحت بھی نجی ٹی وی کے کامیڈی ڈرامہ’’ خوشحال پورہ‘‘ میں کام کیا۔انہوں نے بتایا کہ کامیڈی کا مستقبل پاکستان میں روشن ہے۔ہمسایہ ملک کے فنکار پاکستانی فنکاروں کی کاپی کرتے ہیں اور ہمارے فنکاروں نے وہاں جا کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا،ابھی تک جو فلمیں اس دور میں کامیاب ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر کامیڈی فلمیں ہیں ’’ رانگ نمبر‘‘ نے بھی بہت اچھا بزنس کامیڈی فلم ہونے کی وجہ سے کیا تھا۔ کامیڈ ی میں آپ اگر موجودہ دور کی بات کرینگے تو اسے زیادہ مقبولیت ملے گی‘ جیسے سوشل میڈیا ہے جس میں فیس بک ‘ ٹویٹر‘سکائپ‘ ایمو‘وائبر‘ انسٹا گرام اور وٹس ایپ ہے۔اگر ہم مزاح میں ان کو اور ان سے وابستہ چیزوں کو ڈسکس کرینگے تو لوگ زیادہ پسند کرینگے کیونکہ ہر بندہ ان کیساتھ منسلک ہے۔اپنے مقبول گیتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے غفار لہری نے بتایا کہ ان کا خواجہ سراؤں پر گیت ’’کدی تے ہس بول وے‘ نہ فیس بک کھول وے‘‘بہت مقبول ہوا اس کے بعد ’’مائیکل جیکسن والا گیت اور ’’ایویں بھل کے میں ویاہ کروایا ‘تہاڈی فرمائش تے‘‘اسکے علاوہ’’ککڑوں کڑوں‘میں جدھر ویکھاں دسدی ایں توں‘‘مختلف چینلز سے چلے اور مقبول ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ کچھ کامیڈی گیت ابھی پائپ لائن میں ہیں ۔میری ایک پشتو پیروڈی’’آیا نہ اکبر خانا‘آیا بجلی بل جرمانہ‘میرا دل بڑاپریشانا‘ پخیرا غلے‘‘بھی بہت مقبول ہوا۔ آجکل کئی آئیٹمز چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے گیت کے ساتھ اس کا پورا میوزک منہ کے ساتھ بجا لیتا ہوں ۔میری اس آئیٹم کو بھی بہت سراہا گیا ہے۔کئی آئیٹمز پائپ لائن میں ہیں۔دیگر مزاحیہ آئیٹموں میں ’’چوہے والی ‘‘ بہت مقبول ہوئی۔لڑکی سسرال چلی والا آئیٹم‘14مختلف آوازوں والی پیروڈی‘اس کے علاوہ سی این جی والا آئیٹم‘گبر سنگھ اور درد ڈسکوآئیٹمز ‘مسٹر بین اور جوکر کے کریکٹرنے بہت مقبولیت سمیٹی ۔جوکر کا رول عثمان پیرزادہ کے ساتھ کیا ان کے فیسٹیول میں پرفارم کرنا اچھا لگا،انہوں نے اپنے استادلیجنڈ لہری کی بات کبھی نہیں چھوڑی اور وہ ہے نماز۔ انہوں نے بتایا کہ البیلا نے ایک بار مجھے نصیحت کی کہ شوبز کو شوق کی حد تک رکھنا اس پر کبھی یقین نہ رکھنا ورنہ بھوکے مرو گے۔اس لئے میں ساتھ ساتھ جوتوں کی ڈیزائننگ بھی کرتا ہوں۔آخر میں نئے فنکاروں کیلئے یہی کہوں گا کہ وہ تعلیم مکمل کرکے اس فیلڈ میںآئیں اور ساتھ سائیڈ بزنس بھی کریں اور مسلسل محنت کو اپنا شعار بنائیں۔انہوں نے کہا کہ بھارتی ثقافتی یلغار اگر رکی ہے تو یہ وقت ہے کہ پروڈیوسر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر فلمیں اور ڈرامے اپنے بنائیں ۔بھارتی ڈراموں یا فلم کا پاکستان میں چلنے کا مطلب کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ نہیں جبکہ ایسی بات نہیں ہے۔ہمارا ملک ٹیلنٹ سے بھرپور ہے، ٹی وی ڈرامہ میہں تو ہمسایہ ملک اب بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا اور فلموں میں بھی ڈیفرنٹ موضوعات پر مبنی عالمی میعار کی فلمیں بنائی جایءں آپس کے اختلافات بھلا کر لاہور اور کراچی کے چکروں سے نکلکر پاکستان کی فلم بنایءں تو ہمارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا