گیت ،غزل کی بجائے قوالی اور صوفی کلام سے روحانی سکون ملتا ہے، سکندر بدر میاں داد خان

قوالی ہمارے خاندان میں نسل در نسل چلی آرہی ہے، ہمارا اور استاد نصرت فتح علی خان مرحوم کا ایک ہی خاندان ہے،

کسی سے کوئی جیلسی نہیں، میرے والد نے استاد نصرت فتح علی خان کے عروج کے زمانے میں شہنشاہ قوالی کا خطاب حاصل کیا

انڈیا میں اے آر رحمان پسند ہیں، جبکہ پاکستان میں طافو خان،ایم ارشد، ایم سلمان اشرف پسند ہیں، اداکاری کی بھی آفرز تھیں، مگر انکار کر دیا

انٹرویو ، انجم شہزاد

قوالی ہمارے خاندان میں نسل در نسل چل رہی ہے، ہمارا خاندان 6سو سال سے اس فیلڈ میں ہے، ہمارا اور استاد نصرت فتح علی خان کا تعلق ایک ہی گھرانے سے ہے، ہمارا ددھیال خاندان ایک ہے، اور میرے والد نے استاد نصرت فتح علی خان کی موجودگی میں شہنشاہء قوالی کا خطاب حاصل کیا، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے شہنشاہ قوالی سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی ، ان خیالات کا اظہار شہنشاہ قوالی استاد بدر میاں داد خان قوال کے فرزند ارجمند سکندر بدر میاں داد خان قوال نے ایک ملاقات میں کیا، پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ، بہت چھوٹی عمر سے ہی سیکھنے لگا تھا، گھر میں والد صاحب کا رعب اور دبدبہ بھی تھا ، مگر میں مجبوری نہیں بلکہ شوق سے قوالی کی فیلڈ میں آیا، ہمارے پڑدادا استاد دین محمد خان جالندھری کا قوالی کی دنیا میں بڑا نام ہے ان کے بعدمیرے دادا میاں داد خان اور میرے والد استاد بدر میاں داد خان نے بڑا نام کمایا، سکندر بدر میاں داد خان نے کہا کہ میں نے 1999سے سیکھنے کا آغاز کیا ، میں نے سات آٹھ سال والد صاحب سے سیکھا ان کو سنا ان کے ساتھ پرفارم کیا، جس سے مجھ میں اعتماد آیا، جب سیکھنے کا آغاز کیا تب ہی والد صاحب کے ساتھ یو کے میں پرفارم کیا، جبکہ سولو پرفارمنس یعنی والد صاحب کے بغیر 2005سے کی، ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ اب تک میرے 14البم مارکیٹ میں آچکے ہیں، جن میں چشتی گلدستہ سب سے زیادہ ہٹ ہوا، اب تک پاکستان کے علاوہ انڈیا، اور افغانستان میں پرفارم کیا ، یہ بھی والد صاحب کی وجہ سے گیا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں ان کی جگہ پرفارم کرنے گیا، وہاں فارسی میں قوالی پیش کی، سکندر بدار میاں داد خان نے کہا کہ مجھے قوالی کے علاوہ غزل اور گیت گائیکی پر بھی عبور حاصل ہے اور میں نے بہت سے گیت بھی ریکارڈ کروائے جو عوام میں بے حد مقبول ہوئے مگر مجھے بذات خود صوفی کلام گانا ہی اچھا لگتا ہے، ایک سوال کے جواب میں سکندر بدر میاں داد خان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ہمارے آباواجداد کا موسیقی کا بے بہا خزانہ موجود ہے، بہت سی شاعری، طرزیں محفوظ ہیں، جو ہم اب ریکارڈ کروا رہے ہیں،ہمارا سٹوڈیو ہے، sab studioکے نام سے، میرا بھائی علی بدر میرے ساتھ ہوتا ہے،وہ سٹوڈیو کے معاملات دیکھتا ہے، میوزک ترتیب دیتا ہے، سکندر بدر میاں داد خان نے کہا کہ میں نے اپنے البم اور سولو پرفارمنس کے علاوہ فلموں کے لیئے گایا ہے جن میں چار فلموں میں قوالی، جن میں گجراں دی جوڑی‘پیام پنجتن پاک، لباس‘اور آنے والی فلم ’’جنگ ‘‘شامل ہے، جبکہ کچھ ٹی وی ڈراموں کا بیک گراونڈ میوزک اور ٹائٹل سونگ بھی گائے ہیں، جن میں ’’محبت کہانی‘‘ اور دیگر شامل ہیں، اداکاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ فلموں میں قوالی فلمائی گئی اس کے علاوہ ویڈیوز میں ایکٹنگ کی اور مجھے فلموں ڈراموں میں اداکاری کی بھی آفرز آئیں، جبکہ ہمسائیہ ملک سے بھی پنجابی فلم کی آفر ہوئی کہ اداکاری بھی کروں اور گانا بھی گاؤں مگر میں نے انکار کردیا، مگر ایک فلم میں انڈیا میں ابھی بھی گانا ہے، جس میں میرے علاوہ عاطف اسلم اور نوراں سسٹرز کے گانے ہیں، سکندر بدر میا ں داد خان نے کہا کہ ہم اپنے سٹوڈیو کے زیر اہتمام ہر مہینے کوئی نا کوئی نیا آئٹم ریلیز کرتے ہیں، وہ موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے جیسے رجب میں قصیدہ، شعبان میں دھمال، داتا صاحب اور بابا فرید کے عرس کے موقع پر بھی جبکہ میں نے اپنے والد کی سپرہٹ قوالیوں،’’ کدی تے داتا پچھن گے‘‘ ’’دم دم حسین‘‘اور دیگر کو ریمکس کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے، جسے لوگ کافی پسند کر رہے ہیں،شاگرد بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہاں سیکھنے والے کم ہیں، مگر قوالی ایسا فن ہے جو سیکھنے کے بنا آتا ہی نہیں، گلوکار بہت ہیں جو سیکھے بنا فیلڈ میں ہیں،میں نے بھی چار پانچ شاگرد بنائے جو شکر ہے فیلڈ میں ہیں، انڈین قوالی اور پاکستانی قوالی میں فرق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اور باالخصوص پنجابی سٹائل زیادہ پسند کیا جاتا ہے، اس کو دو آبہ انگ کہتے ہیں، یہ ہی درباری انگ ہے میں کسی کو برا نہیں کہتا بات پسند کی ہو رہی ہے، ایک سوال کے جواب میں سکندر بدر میاں داد خان کے کہا کہ قوالوں کا کھانا شاہی ہوتا ہے،اور کھانے پینے میں بھی خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، سکندر بدر میاں داد خان نے کہا کہ ہماری کسی سے جیلسی نہیں اپنے والد کے علاوہ استاد نصرت فتح علی خان کو بہت سنا میری بد قسمتی کہ ان کے سامنے پرفارم نہیں کر سکا، ہمارا ان کا خاندان ایک ہے وہ ہمارے والد کے کزن تھے، اب بھی راحت بھائی سے بھی میل ملاقات ہے، ہر کسی کا اپنا مقام ہے، میرے والد صاحب نے استاد نصرت فتح علی کی موجودگی میں شہنشاہ قوالی کا خطاب حاصل کیا یہ ہمارے لیئے بھی اعزاز سے کم نہیں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انڈیا میں بہت عزت ملی پرفارم کیا تو بعد میں حالات کی وجہ سے نہیں جا سکے اب پھر جانا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ اے آر رحمان میرے فیورٹ میوزک ڈائریکٹر ہیں، وہ بھی ہمارے گھرانے کے ہی شاگرد ہیں، مطلب وہ استاد نصرت فتح علی خان کے شاگرد ہیں،پاکستان میں استاد طافو، ایم ارشد، ایم سلمان اشرف پسند ہیں، میوزک میں جدت لانے کے حوالے سے سکندر بد میاں داد خان قوال کا کہنا تھاوقت کے ساتھ ساتھ جدت ضروری ہے، استاد نصرت فتح علی خان نے بھی جدت اپنائی تو دنیا بھر میں مقام بنایا میں اور میرے بھائی علی بدر میاں داد خان مختلف تجربات کر رہے ہیں، ہم موسیقی کی تمام اصناف کو قوالی کے ساتھ مکس کر رہے ہیں، جیسے، فوک، راک، پاپ، ڈیپ سٹیپ، ہپ ہاپ، جتنی بھی اصناف ہیں ان کو قوالی کے ساتھ مکس کر رہے ہیں، ایک دو آئٹم جلد ریلیز کر رہے ہیں، جنہوں نے سنا وہ پسند کر رہے ہیں، ویڈیو کسی سنگر کی کامیابی کے لیئے کتنا اہم ہے اس سوال کے جواب میں سکندر بدر میاں داد خان نے کہا کہ گانا ہو یا میوزک کی کوئی بھی صنف اس میں ویڈیو کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ اگر آڈیو ہلکا بھی ہو تو اس کا ویڈیو اگر اچھا بن جائے تو وہ آئٹم ہٹ ہو جاتا ہے کیونکہ گانا سننے کے ساتھ دیکھنے کی چیز بن چکا ہے،میرے بھی چند ویڈیوز جلد ہی منظر عام پر آرہے ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ ہمیں درباری قوال کہا جاتا ہے، بابا فرید کی نسبت سے ہمیں فریدی کا لقب حاصل ہے، دنیا بھر میں ہمیں فریدی قوال کی حیثیت سے ہی جانا جاتا ہے، اور درباروں میں جا کے بھی قوالی کا شرف حاصل ہوتا ہے، تمام چینلز پر پرفارم کر چکا ہوں بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں، مگر عوام کی پسندیدگی کو سب سے بڑا ایوارڈ سمجھتے ہیں، جو ہمارے خاندان کو حاصل ہے، سکندر بدر میاں داد نے کہا کہ جلد ہی بیرون ملک شوز کے لیئے بھی جا رہا ہوں، یادگار شوز کے حوالے سے سکندربدر میاں داد نے کہا کہ بہت سے یادگار ایونٹس ہیں، مگر کروڑ لعل عیسن میں ایک ایونٹ کیا تھا جس میں لاکھوں کا مجمع تھا، اور بہت لمبا سفر کیا عوام انتظار میں بیٹھی رہی، ایک اور سوال کے جواب میں سکندر بدر میاں داد نے کہا کہ نوجوان نسل میں صوفی ازم فروغ پا رہا ہے، اور نوجوان نسل میں اسلام کے فروغ کے لیئے آسان ذریعہ ہے، آجکل نئے سنگرز بھی صوفی کلام ریکارڈ کروا رہے ہیں اور وہ مقبول بھی ہو رہے ہیں، ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پہلے پاکستانی فلموں میں قوالی کا بڑا رجحان تھا پھر کم ہوا مگر میرے خیال میں جہاں فلمی میوزک پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ایسے ہی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے صوفیا کا کلام نئی نسل تک پہنچانا چاہیئے، ہمسایہ ملک نے اپنے مذہب اور ثقافت کے پھیلاؤ کے لیئے فلموں ڈراموں کو استعمال کیا جبکہ ہمارے پروڈیوسر اس اہمیت کو سمجھ نہیں رہے، آخر میں سکندر بدر میاں داد خان قوال نے کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنائے، اور ہم یوں ہی اپنے خاندانی فن کو آگے بڑھاتے رہیں،

شیئرکریں