اب اچھی فلمیں بننا شروع ہوئی ہیں، سکرین پر تازگی کا احساس ہوا، مگر جیسے پہلے فلمیں بن رہی تھی اب تعداد کم ہو گئی،
جس طرح ٹی وی پر انڈین ڈراموں پر پابندی لگی، فلموں پر بھی لگائی جائے ، یا ہماری فلمیں بھی ہمسائیہ ملک میں لگائی جائیں،
(انٹرویو، انجم شہزاد)
ٹی وی ڈراموں میں بے تحاشہ کام کیا اور پھر عین عروج پر ٹی وی ڈرامہ چھوڑ کر بیرون ملک شفٹ ہوگیا،کیونکہ بیرون ملک بزنس کے سلسلے میں گیا تھا، مگر اداکاری کا جراثیم اندر ہی اندر موجود رہا، جن پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا جب پاکستان آتا تھا تو دوبارہ آفرز کرتے تھے، مگر میں انکار کر دیتا تھا کہ اگر اپنے بہتر مستقبل کے لیئے بیرون ملک گیا ہوں، تو پہلے اپنے کام پر توجہ دوں گا پھر کبھی موڈ ہوا تو اس طرف آئوں گا، یو ں اب جبکہ فلم انڈسٹری میں اچھا کام سٹارٹ ہوا تو ملک کی خدمت کرنے کا جنون مجھے فلمسازی کی فیلڈ میں لایاان خیالات کا اظہار ماضی کے اداکار اور موجودہ فلمساز اسلم حسن نے ایک ملاقات میں کیا، اسلم حسن جو گزشتہ کافی عرصہ سے انگلینڈ میں مقیم ہیں، مگر پاکستان آنا جانا لگا رہتا ہے اور انہوں نے یہاں پر دو فلمیں’’خان بابا‘‘ اور ’’پرامس‘‘بطور پروڈیوسر سٹارٹ کیں، جن میں اداکاری کے جوہر بھی دکھاتے نظر آئیں گے، گزشتہ دنوں نجی دورے پر پاکستان آئے تو ان سے فلم انڈسٹری اور موجودہ حالات پر جو گفتگو ہوئی وہ قارئین کی دلچسپی کے لیئے حاضر ہے، ایک سول کے جواب میںاسلم حسن نے کہا کہ میں نے پی ٹی وی کا سنہری دور بھی دیکھا ہے جب سٹوڈیوز میں بھی رونقیں ہوتی تھی، اور بے تحاشا کام ہوتا تھا، چینل بھی ایک تھا تو اس پر کام کرنے والا راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا تھا، میں نے اس دور میں ا’’آج دی کہانی،’’آنکھ اوجھل‘‘بے انتہا‘‘اور دیگر ڈراموں میں کام کیا
میں نے ہمیشہ سینئرز سے سیکھنے کی کوشش کی، اس وقت سینئرز سکھاتے بھی تھے، اور جونیئرز میں سیکھنے کا جذبہ بھی موجود تھا، اب جونیئرز ، سینئرز کا احترام کرنے کی بجائے خود کو بہت کچھ سمجھتے ہیں، ایک سوال کے جواب میں اسلم حسن نے کہا اس وقت کام تو مل جاتا ہے ، پہچان بنانا مشکل ہے، فلم انڈسٹری کے موجودہ حالات کے متعلق کہا کہ کچھ عرصہ قبل فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہوئی اس کی ذمہ داری بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد پر ہی عائد ہوتی ہے، جنہوں نے جدید تقاضوں کے مطابق کام نا کیا، وہی گھسے پٹے موضوعات ، کاپی کہانیاں، گلیمر کے نام پر ولگیرٹی کی انتہا ہو گئی، جس وجہ سے فیملیز نے آنا چھوڑ دیا، اور رہی سہی کسر انڈین فلموں کی ریلیز نے پوری کر دی، جس وجہ سے فلم انڈسٹری ڈانواں ڈول ہوگئی، اور جہاں سال میں سینکڑوں کی تعداد میں فلمیں بنتی تھی، انگلیوں پر گنی جانے لگیں، سینما ہال ختم ہو گئے، جہاں ہزاروں سینما تھے، ان کی تعداد چند سو تک پہنچ گئی، سرمایہ کاروںنے ہاتھ کھینچ لیا، جبکہ اس انڈسٹری کو حکومتی سرپرستی کبھی بھی حاصل نا ہوسکی، ایک سوال کے جواب میں اسلم حسن نے کہا کہ ایسے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا کہ میرا تعلق شوبز سے رہا ہے تو کیوں نا میں کچھ کروں، اس طرح میں اداکاری چھوڑ کر بیرون ملک گیا تھا مگر فلمساز بن کر پالکستان واپس آیا اور میں نے فلم’’خان بابا‘‘کا آغازکیا جس کی ڈائریکشن فیصل اعجاز بھلی کے ذمہ لگائی، کیونکہ انہوں نے ایک اچھے سکرپٹ کا انتخاب کیافیصل اعجاز نے چند ٹیلی فلمز اور کمرشلز سے اپنا منفرد مقام بنایا ہے ، فلم انڈسٹری میں نئے خون کی اشد ضرورت ہے اسی لیئے میں نے ان کا انتخاب کیا، ’’خان بابا‘‘ بہت اچھا موضوع ہے اس فلم کی تقریبا ستر فیصد ریکارڈنگ مکمل ہوچکی ہے، اس میں میرا کردار خصوصی نوعیت کا ہے، میرے ساتھ شفقت چیمہ نے بھی ایک رول نبھایا ہے اس فلم میں وہ روٹین ولن کی بجائے پرفارمر کے طور پر نظر آئیں گے، ، ’’خان بابا ‘‘ کے بعد فیصل اعجاز کے ساتھ ایک اور فلم کی کہانی ڈسکس ہوئی ’’پرامس ‘‘کے نام سے اس فلم کا آغاز بھی جلد ہی کیا جائے گاکاسٹنگ پر کام جاری ہے، فیصل اعجاز نے کہانی کے بعد کاسٹنگ پر کام جاری رکھا ہے،اسلم حسن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فلم انڈسٹری کے بڑوں کو آپس کے اختلافات بھلا کر مل جل کر فلمیں بنانی چاہیں، یہاں پاکستانی فلم کی بجائے کراچی، اور لاہور کی فلم کہا جاتا ہے،ہمارا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود اپنے آپ سے ہے، اسلم حسن نے کہا کہ موضوعات میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہی ہمیں بیرونی دنیا میں کامیابی دلا سکتا ہے، فلم ہو یا ٹی وی ڈرامہ اچھا میڈیم ہے جس کی وجہ سے سافٹ امیج پیش کیا جا سکتا ہے ٹی وی ڈرامہ تو اس وقت میعار کی بلندیوں کی جانب گامزن ہے، ہو سکتا ہے کہ میں ڈرامہ پروڈکشن بھی کروں مگر پہلے عالمی میعار ی پاکستانی فلم بنا کر پاکستان کا امیج بہتر کرنا چاہتا ہوں، اسلم حسن نے کہا کہ پاکستانی ڈرامہ ہمیشہ سے معاشرتی اور اصلاحی پہلو منظر عام پر لے کے آیا ہے، پرائیویٹ چینلز پر بہت بولڈ موضوعات پر بھی ڈرامے بنائے جا رہے ہیں، جبکہ ہمسائیہ ملک کے پاس ڈرامے کے حوالے سے ہمیشہ فقدان رہا ہے،ایک سوال کے جواب میں اسلم حسن نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں پاکستانی چینلز پر انڈین ڈراموں کی بندش کی خوشی ہوئی ہے اسی طرح اگر انڈین فلموں پر بھی پابندی لگائی جائے تو پاکستان میں کام زیادہ سٹارٹ ہوگا اور فلم انڈسٹری کے وہ تکنیک کار جو فاقوں کیزندگی گزار رہے ہیں، ان کے حالات بھی بہتر ہو جائیںگے، ایک سوال کے جواب میں بیرون ملک پاکستانی اپنے ملک میں سرمایا کاری سے اس لیئے اجتناب کرتے ہیں کہ یہاں کوئی کام بنا رشوت کے نہیں ہوتا، ٹیکس چوری کا رواج عام ہے جبکہ سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں،اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو بے تحاشا سرمایا کاری پاکستان میں ہوسکتی ہے، آخر میں اسلم حسن نے کہا کہ میرا فلم سازی میں آنے کا مقصد خود اداکری کرنا نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیئے کچھ کرنا چاہتا ہوں، دعا ہے کہ ہماری دونوں فلمیں کامیاب ہوں ، تو مزید دوستوں کو بھی اس فیلڈ میں لے کر آئوں گا،